اسلام آباد:
حکومتِ پاکستان نے جمعہ کے روز ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر سیدل خان ناصر کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس میں ایک اہم قانون سازی منظور کی۔ اجلاس کے دوران "پاکستان پینل کوڈ (ایکٹ XLV آف 1860) اور ضابطۂ فوجداری 1898 (ایکٹ V آف 1898)” میں ترامیم پر مشتمل بل "فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ، 2025” وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے پیش کیا، جسے اکثریتی ووٹ سے منظور کر لیا گیا۔
اس ترمیمی بل کے تحت پاکستان پینل کوڈ اور ضابطہ فوجداری کے دو دفعات — سیکشن 354-A اور سیکشن 402-C — اور شیڈول-II میں ترامیم کی گئی ہیں۔
اہم تبدیلی:
ترمیم کے مطابق ان دونوں دفعات سے "سزائے موت” کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔
سیکشن 354-A کیا ہے؟
354-A:
"کسی عورت پر حملہ کرنا یا اس کے کپڑے پھاڑنا اور اسے عوام کے سامنے بے لباس ظاہر کرنا۔ جو شخص کسی عورت پر حملہ کرتا ہے یا زبردستی اس کے کپڑے پھاڑتا ہے اور اسے ایسی حالت میں عوام کے سامنے لاتا ہے، اسے سزائے موت یا عمر قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔”
اب ترمیم کے بعد "سزائے موت” کے الفاظ اس دفعہ سے نکال دیے گئے ہیں۔ یعنی اب ایسے جرم پر صرف عمر قید اور جرمانہ ہوگا، سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
سیکشن 402-C کیا ہے؟
402-C:
یہ دفعہ "ہائی جیکنگ میں ملوث افراد کو پناہ دینے” سے متعلق ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر ایسے کسی فرد کو پناہ دے جس کے بارے میں اسے علم ہو یا شک ہو کہ وہ ہائی جیکنگ میں ملوث ہے (چاہے اس نے جرم کا ارتکاب کیا ہو، کوشش کی ہو یا اعانت کی ہو) یا اپنے اختیار میں موجود کسی جگہ پر ان افراد کو جمع ہونے دے، تو اسے سزائے موت یا عمر قید اور جرمانہ ہو سکتا تھا۔
اب ترمیم کے بعد "سزائے موت” کا آپشن اس دفعہ سے بھی نکال دیا گیا ہے، اور اب صرف عمر قید اور جرمانہ کی سزا باقی رہے گی۔
بل کا پس منظر اور وجوہات:
بل کے مقاصد و اغراض میں واضح کیا گیا ہے کہ:
آرٹیکل 6(2) آئی سی سی پی آر (ICCPR) کے تحت سزائے موت صرف "انتہائی سنگین جرائم” پر دی جا سکتی ہے۔
"جن ممالک نے سزائے موت ختم نہیں کی، ان میں یہ سزا صرف ایسے جرائم پر دی جا سکتی ہے جو انتہائی سنگین ہوں، اور یہ سزا کسی بااختیار عدالت کے حتمی فیصلے کے تحت ہی دی جا سکتی ہے۔”
پاکستان نے اپنے بین الاقوامی وعدوں، خاص طور پر GSP+ اور ICCPR کے تحت سزائے موت کو محدود کرنے کے لیے 7، 8 اور 10 ستمبر 2021 کو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تین اہم اجلاس منعقد کیے۔ ان میں سزائے موت کو اسلامی اصولوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق محدود کرنے پر غور کیا گیا۔
وزارتِ داخلہ و انسدادِ منشیات نے اس کے بعد "فوجداری قوانین (ترمیمی) بل، 2025” تیار کیا، جس میں سیکشن 354-A اور 402-C سے سزائے موت کو ختم کر کے اس کی جگہ عمر قید کی سزا رکھی گئی۔
بل کو 19 جون 2025 کو سینیٹ میں وزیر مملکت طلال چوہدری نے پیش کیا، جسے 2 جولائی 2025 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے منظوری دی۔ رپورٹ جمعہ کے اجلاس میں پیش کی گئی، جہاں اکثریتی ووٹ سے بل منظور کر لیا گیا۔ اب یہ بل قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
بل پر مختلف آراء:
وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ:
- سزائے موت کا جرم پر اثر نہیں پڑتا۔
- پوری یورپ میں سزائے موت نہیں ہے، اور وہاں کا جرم کا تناسب صرف 2 فیصد ہے۔
- یورپ میں جیلیں خالی ہو چکی ہیں، وہاں کی جیلیں میوزیم بن چکی ہیں۔
- پاکستان میں 80 سے 100 قوانین میں سزائے موت موجود ہے، لیکن جرم کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔
- سزائے موت کی بجائے ضروری ہے کہ لوگ جانیں کہ اگر وہ غلطی کریں گے تو انہیں سزا ملے گی۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی مخالفت:
- ریپ کیسز میں پہلے ہی کمزور پراسیکیوشن ہے، اور اب سزا کم کرنا ظلم ہوگا۔
- اگر عورت کے کپڑے پھاڑنے جیسے جرم پر بھی قانون نرم کر دیا جائے گا، تو زیادتی کے مقدمات میں اور بھی رکاوٹیں آئیں گی۔
- خواتین آج بھی مشکلات کا شکار ہیں، معاشرہ انہیں ترقی نہیں کرنے دیتا۔
- ہم اسلامی ملک ہیں، اور ایسے قوانین کو نرم کرنا درست نہیں۔